نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

وطن کی ماں


 گود میں کلکاریاں مارتے ہوئے بچے کو دیکھ کر جینے والی ماں‘ اسے گرتا‘ روتا ‘شرارتیں کرتا‘ ہر گھڑی اس کا لمس اپنے وجود کے اندر سموئے اسے بڑھتا دیکھ کر اس کی سو سو بلائیں لینے والی ماں‘ ایک لمحہ خود سے جدا نہ کرنے والی ماں‘ بڑے چائو لیکن نم ناک آنکھوں سے ایک دن اُسے گھر سے نرسری پھر سکول اورپھر کالج آتے جاتے دیکھتی ہوئی ماں ایک دن اپنے بیٹے کو فوجی وردی پہنا کر وطن کا سپاہی بنا کر بھیج دیتی ہے تا کہ وہ ملک کی حفاظت کرے ۔ 


خاکی وردی پہنا کر اپنے اس لال کے ہاتھوں میں رائفل‘ مارٹر اور کلاشنکوف تھما کر کبھی اسے توپچی اور ٹینک شکن بنا کر تو کبھی اسے آرمرڈ کور کا شہ سوار بنا کر‘ کبھی کسی آبدوز کا کمانڈر اور کبھی جنگی بحری جہاز کا کموڈور تو کبھی فائٹر پائلٹ بنا کر دشمن کو شکست دینے کا حکم دے کر رخصت کرنے والی ماں اپنے جوان کو وطن کی حرمت کے لیے ‘اس کی فضائوں میں گونجتی ہوئی اﷲ اکبر کی صدائوں کو مزید بلند کرنے کے لیے اپنے آگے عقیدت سے سر جھکائے وطن کے سپاہی کی صورت میں کھڑے بیٹے کا ماتھا چوم کر وطن عزیز کے شہروں‘ پہاڑوں‘ صحرائوں اور میدانوں‘ سمندروں اور فضائوں میں سرگرم ہونے والے کسی بھی محاذِ جنگ کی جانب بھیجنے والی ماں‘ اس ملک و قوم کی محسن ہے جو اپنی سب سے قیمتی متاع کو اس ملک اور قوم کے سب سے بڑے دشمن کے مد مقابل لا کھڑاکرتی ہے۔ وہ ماں جس کا دل اپنے لال کے بدن پر ہلکی سی خراش آنے سے بے چین ہو جاتا ہے‘ جس کی معمولی سی تکلیف اسے برداشت نہیں ہو پاتی ‘محاذ جنگ کی جانب بڑھنے والے ان سپائیوں کی مائیںاچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے وطن کا دشمن عددی اعتبار سے ان سے چھ گنا بڑا ہے‘یعنی ہمارے ایک جوان کے مقابلے میں دشمن کے چھ سپاہی ہوں گے‘ ہمارے کے ایک ٹینک کے مقابلے میں دشمن کے پانچ ٹینک ہوں گے‘ ہماری ایک آبدوز کے مقابل دشمن کی دو آبدوزیں ہوں گی‘ ہمارے ایک فائٹر جیٹ کے سامنے دشمن کے تین فائٹر جیٹ ہوں گے‘ اس کے با وجود نم ناک آنکھوں سے ہی سہی ناصر‘ علی‘ ہارون‘ معظم‘ تیمور‘نیک محمد‘ عمران‘ عثمان‘محفوظ‘ لالک جان‘ شبیر‘ شیر خان‘ندیم‘خالد‘ نوید‘ بچل‘ علی رضا‘ بابر‘ احسن‘ سرور‘ طفیل ‘ عزیز‘ اکرم‘ عاقب‘نادر‘ الطاف‘ قدیر اور حفیظ اﷲ جیسے سینکڑوں نام لے کر یہ شیر دل مائیں تاکید کرتی ہیں'' تینوں رب دیاں رکھاں‘‘۔


محاذ جنگ کی طرف بھیجنے کے بعد ہر آہٹ پر چونک جانے والی ماں‘ ہر فون کال پر گھبرا جانے والی ماں سامنے لگی ٹی وی سکرین پر چلنے والی خبروں کو سانس روک کر سنتی ہوئی ماں کو ایک دن اطلاع ملتی ہے کہ اس کا لال وطن پر قربان ہو کر پاک دھرتی کو سر سبز رکھنے کے لیے اپنے خون سے سیراب کر گیا ہے تو اسے لگتا ہے جیسے اس کی محنت کام آ گئی ہے ‘ پھر کئی گھنٹوں بعد جب اپنے لال کو سفید کفن میں لپٹا دیکھتی ہے تو یادوں کاایک سلسلہ اس کی آنکھوں اور تصورات میں چلنے لگتا ہے۔اس کا بچپن‘ لڑکپن‘ تعلیم کا سلسلہ‘ اس کی پسند یدہ خوراک‘ کپڑے‘ کپڑوں کے رنگ‘ سکول‘ کتابیں بستہ‘ استاد‘ دلچسپیاں‘ مسلح افواج کی لگن‘ وطن سے محبت کا جذبہ‘ مسلح افواج میں بھرتی کے لیے گھر سے نکلتا‘ وہ دن جب وہ اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہوا‘ ڈیوٹی سے اس کے لکھے ہوئے خط‘ ٹیلی فون‘ چھٹی پر آنا پھر جانا‘یہ سلسلہ جو ایک جوان کی شاندار زندگی کا احاطہ کرتا ہے ‘ اس کی شہادت کے بعد یادوں کا یہ سلسلہ چند لمحوں میں شہیدکی والدہ کے ذہن میں آن کی آن میں برقی رو کی طرح دوڑ جاتی ہے۔ اپنے وجود کے اس ٹکڑے کو ہلکی سی چوٹ لگنے پر بے چین ہو جانے والی ماں ذرا سی دیر ہو جانے پر کبھی دروازے ‘کبھی کھڑکی تو کبھی چھت پر چڑھ کر بے قراری سے اس کی راہ دیکھنے والی ماں کے سامنے جب اس گائوں‘ قصبے یا شہر کی گلی محلے کے راستوں سے گزرتے ہوئے ایک فوجی جیپ اور ایمبولینس ایک عجب قسم کی سوگواری ساتھ لئے رکتی ہے ‘جب اس کے ارد گرد کی عورتیں تابوت میں لیٹے ہوئے اس کے جوان لاشے پر نظر پڑتے ہی آہ و بکا کرنے لگتی ہیں تو یہ ماں بھی چیخیں مارتے ہوئے خود سے بے خبر ہو جاتی ہے۔ پھر اسے یاد آنے لگتا ہے کہ اس نے تو اپنے لال کو تاکید کرتے ہوئے خود ہی کہا تھا‘دیکھو اس ماں کی لاج رکھنا‘ سینہ سپر رہنا‘ غازی یا شہید بن کر لوٹنا۔ ایک ماں میں ہوں جس نے تمہیں جنم دیا اور ایک ہم سب کی ماں ہے جس نے ہم سب کو جنم دیا ہے اور وہ ہماری یہ دھرتی ماں ہے جس نے ہمیں اپنے وجود کے اندر سے اناج ‘ پھل سبزیاں کھلا کر پروان چڑھایا جس نے ہمیں نت نئے میوے دیئے جس نے قسم قسم کا لباس دے رکھا ہے جس نے ہمیں پہچان دے رکھی ہے اور یہی وہ ماں ہے جس کے دامن میں رہنے والی کئی مائیں اپنے بیٹوں کو دشمن کی توپوں‘ ٹینکوں‘ جنگی جہازوں اور کلاشنکوفوں لائٹ مشین گنوں اور راکٹ لانچروں‘ بارودی سرنگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج میں خوشی خوشی بھیج کر‘ انہیں آگ اور بارود کے کوہ گراںسے ٹکرا جانے کا حکم دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ کہیں کفر کے پائوں ان کی ماں کے پاک وجود پر نہ آ جائیں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی ماں جسے اپنی پاک دامنی پر ناز ہے‘ جسے اپنے اوپر رہنے بسنے والوں پر پورا یقین ہے کہ وہ اس کے وجود کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے رتی بھر دریغ نہیں کریں گے۔ وہ ماں جانتی ہے کہ اس کی عزت اسی دھرتی سے قائم ہے ورنہ اس کا دشمن دلی‘ گجرات‘ یو پی‘ کیرالہ‘ ممبئی‘ دکن ‘ بنگلور‘ پونا‘ چندی گڑھ اور فلسطین میں لا الہ اﷲ کہنے والوں کی گردنیں اور زبانیں کاٹنا اپنا دھرم سمجھے ہوئے ہے۔ اسی لئے پاک دھرتی کی مائیں ایک ایک کر کے اپنے بیٹوں کو محاذ جنگ کی طرف روانہ کرتی ہے کہ ان دھرتی پر بسنے والی مائوں ‘ بہنوں اور بیٹیوں کے وجود کفر کی سیا ہی میں نہ مل جائیں۔


یہ انہی ماؤں کے حوصلے کا ثمر ہے کہ وطن عزیز کی جانب کوئی دشمن آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ہماری اس دنیا میں ہر روز انقلاب آتے ہیں‘ ملکوں کا نظام تہ و بالا ہوتا ہے‘ شہری مہاجرت کی اذیت اٹھاتے ہیں‘ نظام زندگی کے معمولات کو کون پوچھتا ہے‘ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے چھپتے پھرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ یہ سب کیا ہے؟ اگر اسے سیاسیات ِ عالم کا المیہ نہ کہیں تو جرم ضعیفی کی سزا تو ضرور ماننا پڑے گا۔حقیقت میں یہ کمزور دفاع کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر قسم کی سازش ‘ خواہ وہ اندورونی ہو یا بیرونی اس پر یہ ممالک بھی قابو پا لیتے ‘ اور وہاں کے عوام کو ان مصائب سے نہ گزرنا پڑتا اور زندگی نارمل انداز میں چلتی۔ ان حالات میں جب ہم اپنے گھروں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں‘ ہمارا یقین ہے کہ اس ملک کی حفاظت کے فرائض انجام دینے والے اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں‘ یہ اعتماد ہمیں حوصلہ دیتا ہے۔تو اس امن اور سلامتی کے محافظوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو دن رات کے کسی لمحے اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتے۔ ان جانثاروں کی ماؤں کو یاد کریں جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو وطن کی حفاظت کے فریضے کے لیے سونپ دیا۔ وہ جو شہیدوں کی مائیں ہیں‘ جو غازیوں کی مائیں ہیں‘ جن کے پیارے ملک کی حفاظت کی غرض سے دشمن سے جا ٹکرائے ‘ ان میں سے کچھ اس نیک مقصد میں کام آ گئے ‘ کچھ غازی ہوئے۔ان شیر جوانوں کی ماؤں کو سلام جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کیلئے قربان کر دیا۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غربت ‏اور ‏مہنگائی ‏کے ‏ہوتے ‏ہوئے

کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے عوام کا جینا دوبھر کیا۔ کئی ماہ کی بندش نے کاروباری ماحول کو مٹی میں ملادیا۔ بیروزگاری کیا کم تھی‘ اب مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کھانے پینے کی اشیا روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ بعض اشیا کے دام بے قابو ہوچکے ہیں۔ حکومت اس صورتحال میں یکسر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جس چیز کی قیمت کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں وہ مزید مہنگی ہو جاتی ہے! اس وقت ملک بھر میں بیشتر اشیائے صرف کے دام خطرناک حد تک بڑھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے قیامت سی ڈھائی ہوئی ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (تنظیم برائے پائیدار ترقی) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں سب زیادہ افراطِ زر (مہنگائی) پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت افراطِ زر میں اضافے کی شرح 9 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 7.34 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.97 فیصد اور سری لنکا میں 4.1 فیصد ہے۔ پاکستان میں آٹا 60 سے 70 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے جبکہ بھارت میں اس وقت آٹا 28 روپے، بنگلہ دیش میں 41 ٹکا اور سری لنکا میں 93 روپے...

پاکستان ‏میں ‏طالبان ‏والے ‏حالات ‏نہیں

لاکھ کمزوریاں ہماری اور اُن کمزوریوں کا اعتراف بھی ہم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاشرے کو برا بھلا کہتے ہیں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی تمام کمزوریوں اور مسائل کے باوجود یہ معاشرہ بہتوں سے بہتر ہے۔ رشوت ہے کرپشن ہے نااہلی اور کاہلی ہے لیکن اِس میں خوبیاں بھی ہیں۔ خوبیاں نہ بھی ہوں تو ہم میں سے اکثریت کیلئے یہی ایک گھر ہے۔ تلاشِ معاش میں ہمارے لوگ اِدھر اُدھر جاتے ہیں‘ لیکن گھوم پھر کے گھر اِسی کو کہتے ہیں۔ اِسی سے ہم مانوس ہیں۔ اِسی میں اپنائیت ملتی ہے۔ لہٰذا افغانستان جانے اور وہاں کے طالبان۔ ہماری امید اُن سے یہی ہے کہ وہاں امن رہے تاکہ تخریب کاری یا اور قسم کے شر وہاں سے یہاں نہ آئیں۔ ہم جہاد کے نام پہ بہت کچھ بھگت چکے ہیں، مزید بھگتنے کا ہم میں دم نہیں۔ تجارت رہے بلکہ فروغ پائے، آمدورفت بڑھے، ہم کابل جا سکیں اور وہاں سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچ سکیں۔ ایسا ہو سکے تو کتنا سہانا لگے۔ یہ عجیب دردِ سر ہے کہ ازبکستان جانا ہو تو پہلے دبئی جانا پڑتا ہے۔ ستیاناس ہو اُن کا جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اِدھر اُدھر کے ہوائی سفر کا مرکز اسلا...

ایک نیا کوتوال

 دو برس پورے نہیں ہوئے کہ پنجاب میں چھٹا آئی جی آ گیا۔ حیرت بھری ہاہاکار ہر سو مچی ہے حالانکہ تبادلوں کا یہ سونامی اصل میں تبدیلی ہی کی ایک قسم ہے، وعدہ بھرپور تبدیلی کا تھا، جو اس انداز سے پورا ہورہا ہے۔ بہرحال بہت سے لوگ حیران ہیں کہ سابق آئی جی کو بدلنے کی وجہ کیا ملی۔ لگتا ہے لوگ چھٹے آئی جی کے لیے تیار نہیں تھے‘چھٹا آئی جی جس اچانک انداز میں آیا، اس پر لوگوں کو ’’شاک‘‘ لگنا ہی تھا۔ اور اگر شاک لگا ہے تو یہ دراصل لوگوں کی اپنی بے خبری کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم نے تو کئی ماہ پہلے ہی بھرے جلسے میں اعلان کردیا تھا کہ کام نہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ ارے کمال ہے‘ آپ کو یاد نہیں آ رہا؟ یاد کیجئے‘ وزیراعظم نے بھرے جلسے میں کیا کہا تھا؟ فرمایا تھا کہ یہ آئی جی بہت قابل ہے‘ بہت ایماندار اور پیشہ ور ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔لغات سے رجوع کریں تو ان چار نعروں کا یک فکری ترجمہ کیا بنتا ہے۔ موقع کی تلاش تھی‘ جونہی ملا‘ اعلان پر عملدرآمد کردیا۔ کہئے‘ اب نصیحت کی گنجائش کہاں رہی۔ ٭٭٭٭ ساری غلط فہمیاں ’’لغات‘‘ سے ناواقفی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں لغت پڑھ لی جائیں تو وہ سارے اعلانات...