نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شاندار مواقع

 بہترین اور شاندار مواقع قدرتِ کاملہ نے پاکستان کے لیے پیدا کر دیے ہیں لیکن صرف مواقع سے کیا ہوتا ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر خوش بختی کے منتظر کسی فرد کا کوئی مستقبل ہوتاہے نہ کسی قبیلے اور معاشرے کا۔

بھارت پھنس گیا اور امریکہ بھی۔ امریکہ بظاہر آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی ہفتے دو بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ امارات کے بعد، بحرین کے ساتھ بھی اسرائیلی مراسم استوار ہو گئے۔ امارات کے قریب ایک جزیرے پر موساد نے انٹیلی جنس کے ایک وسیع نظام کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکی تھانیدار ہے۔ عرب ممالک اب گھیرے میں ہیں اور استعماری ترجیحات کے قیدی۔

واشنگٹن کی اس سے بھی بڑی کامیابی یہ ہے کہ بھارتی نواح میں مالدیپ میں ایک بحری اڈہ قائم کرنے کا معاہدہ اس نے کر لیا۔ یوں تو ہندوستان سے بھی مفاہمت ہے کہ ان کے اڈے وہ استعمال کر سکتے ہیں۔

ظاہر یہ ہوا کہ امریکہ سے افریقہ اور افریقہ سے مشرقِ بعید کے تجارتی راستوں پر امریکی غلبہ قائم ہو سکتاہے۔حریف چین مگر لمبی تان کر سو نہیں رہا۔

پچھلی صدی کے چار عشروں کی طرح، جب سوویت یونین ایک عالمی طاقت تھا، چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ شروع ہو چکی۔ چین کی کامیابیاں زیادہ ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے سے دنیا کے کتنے ہی ملک عملاً اس کے حلیف بن چکے۔ کرونا وائرس سے بھارتی معیشت 23فیصد اور امریکی اقتصادیات 37فیصد سکڑ چکی۔ چین کے بارے میں اعداد و شمار مہیا نہیں۔ ماہرین مگر متفق ہیں کہ بیجنگ کا نقصان نسبتاً بہت کم ہے۔ منظم معاشرہ فوراً اٹھا اور نقصانات کو محدود کر دیا۔

چین نے بھارت کو گریبان سے پکڑ لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے روسیوں نے بھارت اور چین میں مفاہمت کرادی،مگر یہ نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔جس ایک ہزار مربع کلومیٹر پر چین نے قبضہ کیا ہے، اسے خالی کرنے کا ہرگز وہ ارادہ نہیں رکھتا۔ پیانگ یانگ جھیل کو جھانکتی ہوئی چار چوٹیوں پر سی آئی اے کے تربیت یافتہ تبتی گوریلوں کی مدد سے بھارت نے قبضہ تو کر لیا، چین مگر اسے بھارت کا حصہ ماننے پر آمادہ نہیں۔

بھارت کے دفاعی ماہرین چیخ رہے ہیں کہ مذاکرات میں وہ مودی کو الجھائے رکھے گااور افواج کی تعداد بڑھاتا چلا جائے گا۔ 14سے 17ہزار فٹ کی بلند ی پر۔ آئندہ دس پندرہ دن میں برف باری کا آغاز ہوجائے گا۔ بھارت کی پچیس سے تیس ہزار فوج یہاں متعین ہو چکی اور اب پڑی رہے گی، سیاچن کی طرح۔

رواں صدی کے آغاز میں دس لاکھ بھارتی دستے پاکستانی سرحدوں کی طرح بڑھے اور اکتوبر 2002ء تک وہیں جمے رہے۔ فوجی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے واپسی تو ممکن ہو گئی تھی لیکن مستقبل قریب میں بھارت چین سرحد پر یہ ممکن نہ ہوگا۔ بھارتی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل جی پی سنگھ کے مطابق یہ 747کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی کو یہ سودا مہنگا پڑے گا۔ پاکستان کے خلا ف مہم جوئی پر ساٹھ ارب بھارتی روپیہ خرچ ہوا۔ اب یہ بار، یہ اخراجات کہیں زیادہ ہوں گے۔صرف اس لیے نہیں کہ سرحد طویل تر ہے بلکہ اس لیے بھی کہ دشمن زیادہ طاقتور ہے۔ جدید ترین میزائل اس نے نصب کر دیے ہیں۔

بھارتی فوج کا ساٹھ فیصد اسلحہ پرانا ہے، جسے بدلنا ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ بے رحم موسم سے ہے۔پہلے سے بددلی میں مبتلا بھارتی فوج میں مایوسی بڑھے گی، دفاعی بجٹ بھی۔ اس حال میں کہ کرونا وائرس روزانہ ایک ہزار زندگیاں نگل رہا ہے۔ کاروبار سمٹ رہا ہے اور غربت فروغ پذیر۔

برف پوش بلندیوں پر فوجیوں کا حوصلہ برقرار رکھنا ہی واحد مسئلہ نہیں۔ سازو سامان اور اسلحہ پہنچانا پڑتا ہے۔ ہنگامی صورتِ حا ل میں اخراجات اور بھی زیادہ۔ اسلحہ، گولہ بارود اور میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے ڈپو بنانا ہوتے ہیں۔ فوجی سامان کو درست حالت میں رکھنے کے لیے ریاضت اور زائد رقوم درکار ہوں گی۔ وسطی ہند سے لیہہ کی برف پوش وادیوں تک، اپریل سے اکتوبر تک ٹرکوں کے کارواں روانہ رہا کریں گے۔ کچھ زیادہ ضروری اور اہم سامان سی 17اور سی 130جے طیاروں پر منتقل ہو گا۔ نقل و حمل کے یہ مہنگے ترین ذرائع ہیں۔ ایک بھارتی فوجی افسر نے کہا: ایک مصیبت اس کے سوا بھی ہے۔ سرحدی ہوائی اڈوں کو وسعت دینا ہوگی۔ خراب موسم میں صاف ستھرا اور قابلِ استعمال رکھنے کے لیے نفری تعینات ہوگی۔ ہتھیاروں کی مرمت اور ان میں پیدا ہونے والی ممکنہ خرابیوں کے لیے کسی ایک نہیں، کئی ممالک پر انحصار کرناہوگا۔ زیادہ تر اسلحہ روس اور امریکہ سے خریدا گیا لیکن کچھ اسرائیل سے بھی۔

حال ہی میں چیف آف ڈیفنس سٹاف، سابق سپہ لار جنرل بپن راوت نے اعلان کیا تھا کہ فوجیوں کی تعداد میں ایک لاکھ کمی کی جائے گی، جو اس وقت 12,50,000ہے۔ بھارت کے فوجی اخراجات کا 83فیصد تنخواہوں پہ اٹھ جاتاہے۔ اسلحے او رجدید کاری کے لیے صرف 17فیصد بچتا ہے۔ آویزش کے بعد یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا، برسوں سے جس پر غور کیا جا رہا تھا۔ اس سے پہلے جنرل وی پی ملک نے بھی ایسا ہی ایک اعلان کیا تھا لیکن پھر کارگل کی جنگ چھڑ گئی۔ چین بھارت مخاصمت نے بھارتی فوج اور سیاسی قیادت کے حوصلے ہی پست نہیں کیے، دہلی کے معاشی خواب بھی مجروح کیے ہیں۔ پاکستان پر اب پہلا سا دباؤ نہیں۔

1984ء سے 2019ء تک سیاچن گلیشئیر17,700فٹ کی بلندی پر869بھارتی فوجی سفاک موسم کی نذر ہوئے۔بھارت کے مختلف علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں سوا ہیں، جن میں مرنے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد کچھ کم نہیں مگر معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ معروف بھارتی اخبارات کے مطابق 2008ء 2013ء کے درمیان 590بھارتی جوانوں اور افسروں نے خودکشی کی۔ کارگل میں برفانی بلندیوں پر بڑھتے ہوئے 527بھارتی سورما المناک انجام کو پہنچے۔

بھارتی اخبارات کا دعویٰ ہے کہ دو مزید بھارتی ڈویژن سرحدوں کی طرف روانہ ہیں۔ معلوم نہیں، اس میں صداقت کتنی ہے۔

بعض مرعوب پاکستانی دماغ ہمیں بھارت کی چار پانچ گنا بڑی طاقت سے ڈراتے رہے۔ پروردگار نے اب اس پر کم از کم چار گنا بڑا دشمن مسلط کر دیاہے۔ ہمیں امریکہ کی ممکنہ بلیک میلنگ سے خوفزدہ کیا جاتا رہا۔ اب وہ خود زوال کی راہ پر ہے کہ آخر کار ہر بلندی کے نصیب میں پستی ہوا کرتی ہے۔

بہترین اور شاندار مواقع قدرتِ کاملہ نے پاکستان کے لیے پیدا کر دیے ہیں لیکن صرف مواقع سے کیا ہوتا ہے۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر خوش بختی کے منتظر کسی فرد کا کوئی مستقبل ہوتاہے نہ کسی قبیلے اور معاشرے کا۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غربت ‏اور ‏مہنگائی ‏کے ‏ہوتے ‏ہوئے

کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے عوام کا جینا دوبھر کیا۔ کئی ماہ کی بندش نے کاروباری ماحول کو مٹی میں ملادیا۔ بیروزگاری کیا کم تھی‘ اب مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کھانے پینے کی اشیا روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ بعض اشیا کے دام بے قابو ہوچکے ہیں۔ حکومت اس صورتحال میں یکسر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جس چیز کی قیمت کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں وہ مزید مہنگی ہو جاتی ہے! اس وقت ملک بھر میں بیشتر اشیائے صرف کے دام خطرناک حد تک بڑھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے قیامت سی ڈھائی ہوئی ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (تنظیم برائے پائیدار ترقی) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں سب زیادہ افراطِ زر (مہنگائی) پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت افراطِ زر میں اضافے کی شرح 9 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 7.34 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.97 فیصد اور سری لنکا میں 4.1 فیصد ہے۔ پاکستان میں آٹا 60 سے 70 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے جبکہ بھارت میں اس وقت آٹا 28 روپے، بنگلہ دیش میں 41 ٹکا اور سری لنکا میں 93 روپے...

پاکستان ‏میں ‏طالبان ‏والے ‏حالات ‏نہیں

لاکھ کمزوریاں ہماری اور اُن کمزوریوں کا اعتراف بھی ہم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاشرے کو برا بھلا کہتے ہیں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی تمام کمزوریوں اور مسائل کے باوجود یہ معاشرہ بہتوں سے بہتر ہے۔ رشوت ہے کرپشن ہے نااہلی اور کاہلی ہے لیکن اِس میں خوبیاں بھی ہیں۔ خوبیاں نہ بھی ہوں تو ہم میں سے اکثریت کیلئے یہی ایک گھر ہے۔ تلاشِ معاش میں ہمارے لوگ اِدھر اُدھر جاتے ہیں‘ لیکن گھوم پھر کے گھر اِسی کو کہتے ہیں۔ اِسی سے ہم مانوس ہیں۔ اِسی میں اپنائیت ملتی ہے۔ لہٰذا افغانستان جانے اور وہاں کے طالبان۔ ہماری امید اُن سے یہی ہے کہ وہاں امن رہے تاکہ تخریب کاری یا اور قسم کے شر وہاں سے یہاں نہ آئیں۔ ہم جہاد کے نام پہ بہت کچھ بھگت چکے ہیں، مزید بھگتنے کا ہم میں دم نہیں۔ تجارت رہے بلکہ فروغ پائے، آمدورفت بڑھے، ہم کابل جا سکیں اور وہاں سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچ سکیں۔ ایسا ہو سکے تو کتنا سہانا لگے۔ یہ عجیب دردِ سر ہے کہ ازبکستان جانا ہو تو پہلے دبئی جانا پڑتا ہے۔ ستیاناس ہو اُن کا جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اِدھر اُدھر کے ہوائی سفر کا مرکز اسلا...

ایک نیا کوتوال

 دو برس پورے نہیں ہوئے کہ پنجاب میں چھٹا آئی جی آ گیا۔ حیرت بھری ہاہاکار ہر سو مچی ہے حالانکہ تبادلوں کا یہ سونامی اصل میں تبدیلی ہی کی ایک قسم ہے، وعدہ بھرپور تبدیلی کا تھا، جو اس انداز سے پورا ہورہا ہے۔ بہرحال بہت سے لوگ حیران ہیں کہ سابق آئی جی کو بدلنے کی وجہ کیا ملی۔ لگتا ہے لوگ چھٹے آئی جی کے لیے تیار نہیں تھے‘چھٹا آئی جی جس اچانک انداز میں آیا، اس پر لوگوں کو ’’شاک‘‘ لگنا ہی تھا۔ اور اگر شاک لگا ہے تو یہ دراصل لوگوں کی اپنی بے خبری کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم نے تو کئی ماہ پہلے ہی بھرے جلسے میں اعلان کردیا تھا کہ کام نہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ ارے کمال ہے‘ آپ کو یاد نہیں آ رہا؟ یاد کیجئے‘ وزیراعظم نے بھرے جلسے میں کیا کہا تھا؟ فرمایا تھا کہ یہ آئی جی بہت قابل ہے‘ بہت ایماندار اور پیشہ ور ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔لغات سے رجوع کریں تو ان چار نعروں کا یک فکری ترجمہ کیا بنتا ہے۔ موقع کی تلاش تھی‘ جونہی ملا‘ اعلان پر عملدرآمد کردیا۔ کہئے‘ اب نصیحت کی گنجائش کہاں رہی۔ ٭٭٭٭ ساری غلط فہمیاں ’’لغات‘‘ سے ناواقفی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں لغت پڑھ لی جائیں تو وہ سارے اعلانات...