نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ستمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اردو بمقابلہ ‏انگریزی

اردوہماری تہذیبی شناخت ہے۔اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔اختلاف بعض دوسرے امور میں ہے ۔مثال کے طور پرکیا یہ شناخت ہمیں مطلوب بھی ہے؟ تہذیبی شناخت کے لیے صرف ماضی سے وابستگی کافی ہے یا اس کے کچھ مطالبات مستقبل سے متعلق بھی ہیں۔ مادی ترقی نے زندگی کے طور طریقوں کو بدل ڈالا ہے۔رہن سہن سے لے کر وسائلِ پیداوار تک‘سب بدل چکا۔اس سے وہ ادب دھیرے دھیرے متروک ہوتا جا رہا ہے جو پچاس ساٹھ سال پہلے تک لکھا گیا۔وہ کلچر اب باقی نہیں جس سے تشبیہ واستعارہ اٹھے تھے ۔چرخہ اب کہیں نہیں ہے۔نئی نسل نے چرخہ دیکھا نہ اس کی کوک سنی۔اور تو اور لوح و قلم تک متروک ہوچکے۔غالب و میر کی تشبیہ کوآج کی نسل سمجھتی ہے نہ اقبال اور فیض کے استعاروں کو۔غالب و اقبال کے بغیر کون سی تہذیب اور کیسی روایت؟ تہذیب ہو یا روایت‘یہ تب ہی زندہ رہتی ہیں جب لہو کی طرح کسی جماعت کی رگوں میں دوڑتی رہیں۔جس دن لہو کی گردش رکی‘جان لیجیے کہ موت نے آ لیا۔رگوں میں دوڑنے کا مطلب ہے کہ تہذیبی مظاہر روز مرہ زندگی کا حصہ بنے رہیں۔ اردو پڑھائی جاتی رہے۔شاعرکی تشبیہات اور استعارے کلچر سے جڑے رہیں۔ اگر یہ نہیں ہیں تو پھر مصنوعی تنفس سے انہیں زندہ ن...

کھایا ‏پیا ‏اور ‏نکلے

ہمارے ارد گرد ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو بہت عجیب ہے اور بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم درست انداز سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ورنہ ہر کہانی اپنے آپ کو بیان کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ بہت سے معاملات ایک دوسرے سے بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں جبکہ اُن میں بہت سے حوالوں سے مماثلت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں ہر شے اپنی حقیقت سے ہٹ کر بہت کچھ دکھائی دیتی ہے یا دکھائی جاتی ہے۔ کہاں کورونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن اور کہاں افغانستان سے امریکا و اتحادیوں کا انخلا؟ کیا اِن دونوں معاملات میں کوئی مطابقت دکھائی دیتی ہے؟ بادی النظر میں تو یہ دونوں ہی معاملات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر بھی سوچئے تو ایک بات صاف محسوس ہوتی ہے‘ کہ دونوں ہی معاملات سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر انتہائی نوعیت کی بلکہ سفاکی سے مماثلت رکھنے والی خود غرضی آج بھی پائی جاتی ہے۔ انسان نے بہت کچھ پالیا ہے مگر جو کچھ پایا ہے وہ کل ملاکر مادّی سطح پر ہی ہے۔ اخلاقی و روحانی معاملات میں بہت کچھ کھو دیا گ...

پاکستان ‏میں ‏طالبان ‏والے ‏حالات ‏نہیں

لاکھ کمزوریاں ہماری اور اُن کمزوریوں کا اعتراف بھی ہم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاشرے کو برا بھلا کہتے ہیں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی تمام کمزوریوں اور مسائل کے باوجود یہ معاشرہ بہتوں سے بہتر ہے۔ رشوت ہے کرپشن ہے نااہلی اور کاہلی ہے لیکن اِس میں خوبیاں بھی ہیں۔ خوبیاں نہ بھی ہوں تو ہم میں سے اکثریت کیلئے یہی ایک گھر ہے۔ تلاشِ معاش میں ہمارے لوگ اِدھر اُدھر جاتے ہیں‘ لیکن گھوم پھر کے گھر اِسی کو کہتے ہیں۔ اِسی سے ہم مانوس ہیں۔ اِسی میں اپنائیت ملتی ہے۔ لہٰذا افغانستان جانے اور وہاں کے طالبان۔ ہماری امید اُن سے یہی ہے کہ وہاں امن رہے تاکہ تخریب کاری یا اور قسم کے شر وہاں سے یہاں نہ آئیں۔ ہم جہاد کے نام پہ بہت کچھ بھگت چکے ہیں، مزید بھگتنے کا ہم میں دم نہیں۔ تجارت رہے بلکہ فروغ پائے، آمدورفت بڑھے، ہم کابل جا سکیں اور وہاں سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچ سکیں۔ ایسا ہو سکے تو کتنا سہانا لگے۔ یہ عجیب دردِ سر ہے کہ ازبکستان جانا ہو تو پہلے دبئی جانا پڑتا ہے۔ ستیاناس ہو اُن کا جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اِدھر اُدھر کے ہوائی سفر کا مرکز اسلا...