نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کھایا ‏پیا ‏اور ‏نکلے

ہمارے ارد گرد ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو بہت عجیب ہے اور بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم درست انداز سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ورنہ ہر کہانی اپنے آپ کو بیان کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ بہت سے معاملات ایک دوسرے سے بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں جبکہ اُن میں بہت سے حوالوں سے مماثلت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں ہر شے اپنی حقیقت سے ہٹ کر بہت کچھ دکھائی دیتی ہے یا دکھائی جاتی ہے۔ کہاں کورونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن اور کہاں افغانستان سے امریکا و اتحادیوں کا انخلا؟ کیا اِن دونوں معاملات میں کوئی مطابقت دکھائی دیتی ہے؟ بادی النظر میں تو یہ دونوں ہی معاملات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر بھی سوچئے تو ایک بات صاف محسوس ہوتی ہے‘ کہ دونوں ہی معاملات سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر انتہائی نوعیت کی بلکہ سفاکی سے مماثلت رکھنے والی خود غرضی آج بھی پائی جاتی ہے۔ انسان نے بہت کچھ پالیا ہے مگر جو کچھ پایا ہے وہ کل ملاکر مادّی سطح پر ہی ہے۔ اخلاقی و روحانی معاملات میں بہت کچھ کھو دیا گیا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت اخلاقی اقدار اور روحانی تعلیمات رہ گئی تھیں‘ وہ بھی ہاتھ سے جاتی رہیں۔

کورونا کی وبا پھیلی تھی تو پوری دنیا پریشان تھی۔ اس وبا کا ہوّا کچھ اس شدت کے ساتھ کھڑا کیا گیا کہ دنیا بھر میں لوگ سہم گئے۔ ہنگامی بلکہ جنگی بنیادوں پر ویکسین تیار ہوئی تو سفّاک نوعیت کی خود غرضی سامنے آئی۔ ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک نے چاہا کہ اُن کے باشندے کورونا کی وبا سے محفوظ رہیں، باقی دنیا بھاڑ میں جاتی ہے تو جائے! ایک بار پھر یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ہر فرد اپنے مفاد کو باقی افراد کے مفاد پر اور ہر قوم اپنے مفاد کو باقی اقوام کے مفاد پر مقدم رکھتی ہے اور اس معاملے میں ہر طرح کی بے شرمی، بے حسی اور بے ضمیری کا ارتکاب پوری ڈھٹائی سے کیا گیا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کورونا ویکسین کی اربوں خوراکیں ذخیرہ کرلیں تاکہ سب سے پہلے ان کے باشندے اس وبا سے محفوظ ہوجائیں اور اگر باقی دنیا کو ضرورت پڑے تو ویکسین کی فروخت سے بھی خوب مال بٹورا جائے۔ امریکا اور یورپ نے اس معاملے میں ایسا بھونڈا رویہ اختیار کیا کہ اُن کی طرف سے الاپا جانے والا تہذیب اور اخلاقی اقدار کا راگ اُن کی اصلیت کا اشتہار بن کر رہ گیا۔ یہ دونوں خطے کچھ ایسے طرزِ فکر و عمل اختیار کیے ہوئے تھے گویا زندہ رہنے کا حق صرف اِنہیں حاصل ہونا چاہیے اور باقی دنیا کو مر جانا چاہیے۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق مغرب کی کم و بیش 80 فیصد آبادی کورونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کرواچکی ہے جبکہ ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی والے افریقہ میں تاحال صرف ایک فیصد افراد کو ویکسین لگائی جاسکی ہے!

افریقہ کو باقی دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک نے صدیوں سے نظر انداز کر رکھا ہے۔ اس خطے کے معدنی ذخائر کو جی بھرکے لُوٹا گیا۔ طویل ساحلوں کا حامل ہونے کے باوجود یہ خطہ اب تک باقی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے قابل نہیں ہوسکا یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ اُسے اِس قابل ہونے ہی نہیں دیا جارہا۔ اب چین افریقہ پر متوجہ ہوا ہے تو مغرب کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ کچھ سیکھنے کے بجائے چین کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اُس پر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرکے افریقہ کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ افریقی ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب تک مغربی طاقتوں نے افریقہ سمیت تمام پسماندہ خطوں کے ساتھ کیا کِیا ہے؟ کیا اُنہوں نے آئی ایم ایف کے ذریعے قرضوں کا جال پھیلاکر پسماندہ خطوں کو اُس میں نہیں پھنسایا؟ آج دنیا بھر میں پسماندہ ممالک انتہائی ابتر حالات سے دوچار ہیں تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے مغرب نے اُنہیں دبوچ رکھا ہے اور پنپنے کی کوئی گنجائش چھوڑی ہی نہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جس بھونڈے انداز سے افغانستان سے انخلا کیا ہے وہ بھی اپنے آپ میں بہت بڑا سبق ہے۔ جس انداز سے انخلا مکمل کیا گیا اُس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ انسان کو ہر حال میں ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے اور یہی قبیح روش پھیل کر پوری قوم یا ملک پر محیط ہو جاتی ہے۔ امریکا اور یورپ ایک نئی دنیا کو یقینی بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ بڑے بڑے آدرشوں کا راگ الاپا جاتا ہے۔ امریکی قیادت خود کو باقی دنیا کے لیے جمہوریت کا چیمپئن کہتی ہے اور جمہوری اقدار و بنیادی حقوق کی علمبردار بنی پھرتی ہے مگر جب اپنے مفادات کی بات آتی ہے تو سارے دعوے ایک طرف دھرے رہ جاتے ہیں، بڑے بڑے آدرشوں پر مبنی ہر بیان اپنا اثر کھو بیٹھتا ہے۔ امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر افغانستان کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا اور جب ضرورت باقی نہ رہی تو اُسے یوں پھینک دیا گیا جیسے وہ ملک نہیں محض ٹشو پیپر ہو۔ افغانستان میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر امریکی اور یورپی فوجی ایسے نکلے کہ پلٹ کر نہیں دیکھا یعنی کھایا، پیا، کھسکے! اب مغرب میں بہت سے تجزیہ کار یہ کہتے ہوئے اپنے فوجیوں اور دیگر باشندوں کو مطعون کر رہے ہیں کہ جن افغان باشندوں نے اتحادیوں کا ساتھ دے کر اپنی زندگی داؤ پر لگادی تھی تو اُنہیں یوں تنہا اور بے یار و مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔

ہزاروں سال کے تہذیبی عمل میں انسان نے بظاہر بہت کچھ سیکھا ہے۔ دنیا بہت بدل گئی ہے۔ محض ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے کسی انسان کو دوبارہ زندگی دی جائے تو وہ آج کی دنیا کو دیکھ کر سمجھ نہیں پائے گا کہ یہ تماشا کیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمیں آج پوری دنیا میں جو کچھ بھی نیا دکھائی دے رہا ہے وہ محض مادّی سطح پر ہے۔ آج کا انسان اخلاقی اور روحانی سطح پر شدید دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ غار کے زمانے کا انسان جس انداز سے سوچتا تھا وہی اندازِ فکر برقرار ہے۔ ''سب سے پہلے میں‘‘ کی ذہنیت دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ انفرادی حیثیت کی بات ہو تو ذاتی مفاد اور اقوامِ عالم کی بات ہو تو قومی مفاد سب پر مقدم رہتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ معاشروں نے ثابت کردیا ہے کہ ہر معاملہ مفاد پرستی سے شروع ہوکر مفاد پرستی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ امریکا نے جو کچھ باقی ممالک کے ساتھ کیا‘ وہی افغانستان کے معاملے میں بھی کیا یعنی کام نکل جانے کے بعد افغانستان کو یوں چھوڑا گویا اُس سے کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو۔ ترقی یافتہ معاشروں نے جتا دیا کہ صرف ہمارا مفاد ہی اصل حقیقت ہے، باقی سب تو افسانہ ہے۔ بڑے بڑے آدرشوں کی باتیں کرنے والے بھی جب بحرانی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں تو صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں، باقی دنیا کی اُن کی نظر میں کچھ بھی وقعت نہیں ہوتی۔

یہ وقت ہر ترقی یافتہ معاشرے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہے۔ یہ ضمیر کا قیدی بننے کی گھڑی ہے۔ باقی دنیا کو پسماندگی سے دوچار رکھ کر یہ معاشرے حقیقی خوش حالی اور استحکام یقینی نہیں بناسکتے۔ پسماندہ ممالک کو برباد کرکے یا لُوٹ کر اپنے لیے ترقی و خوش حالی کا سامان کرنے والے ہر دور میں رہے ہیں مگر دنیا نے اُن کا بُرا انجام بھی دیکھا ہے۔ امریکا اور یورپ کم و بیش ڈیڑھ صدی سے حلوائی کی دکان پر نانا کی فاتحہ والی فضا پیدا کیے ہوئے ہیں۔ دوسروں کی قبر پر اپنا محل تعمیر کرنے کی روش اب ترک کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے باقی دنیا کو متحد ہونا پڑے گا۔ چین اور روس چند ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر کچھ نیا اور بہتر کرنے کا ڈول ڈال تو رہے ہیں۔ مغرب کے جبر کا سامنا کرنے والوں کو اُن کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

غربت ‏اور ‏مہنگائی ‏کے ‏ہوتے ‏ہوئے

کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے عوام کا جینا دوبھر کیا۔ کئی ماہ کی بندش نے کاروباری ماحول کو مٹی میں ملادیا۔ بیروزگاری کیا کم تھی‘ اب مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کھانے پینے کی اشیا روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ بعض اشیا کے دام بے قابو ہوچکے ہیں۔ حکومت اس صورتحال میں یکسر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جس چیز کی قیمت کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں وہ مزید مہنگی ہو جاتی ہے! اس وقت ملک بھر میں بیشتر اشیائے صرف کے دام خطرناک حد تک بڑھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے قیامت سی ڈھائی ہوئی ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (تنظیم برائے پائیدار ترقی) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں سب زیادہ افراطِ زر (مہنگائی) پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت افراطِ زر میں اضافے کی شرح 9 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 7.34 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.97 فیصد اور سری لنکا میں 4.1 فیصد ہے۔ پاکستان میں آٹا 60 سے 70 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے جبکہ بھارت میں اس وقت آٹا 28 روپے، بنگلہ دیش میں 41 ٹکا اور سری لنکا میں 93 روپے...

پاکستان ‏میں ‏طالبان ‏والے ‏حالات ‏نہیں

لاکھ کمزوریاں ہماری اور اُن کمزوریوں کا اعتراف بھی ہم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاشرے کو برا بھلا کہتے ہیں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی تمام کمزوریوں اور مسائل کے باوجود یہ معاشرہ بہتوں سے بہتر ہے۔ رشوت ہے کرپشن ہے نااہلی اور کاہلی ہے لیکن اِس میں خوبیاں بھی ہیں۔ خوبیاں نہ بھی ہوں تو ہم میں سے اکثریت کیلئے یہی ایک گھر ہے۔ تلاشِ معاش میں ہمارے لوگ اِدھر اُدھر جاتے ہیں‘ لیکن گھوم پھر کے گھر اِسی کو کہتے ہیں۔ اِسی سے ہم مانوس ہیں۔ اِسی میں اپنائیت ملتی ہے۔ لہٰذا افغانستان جانے اور وہاں کے طالبان۔ ہماری امید اُن سے یہی ہے کہ وہاں امن رہے تاکہ تخریب کاری یا اور قسم کے شر وہاں سے یہاں نہ آئیں۔ ہم جہاد کے نام پہ بہت کچھ بھگت چکے ہیں، مزید بھگتنے کا ہم میں دم نہیں۔ تجارت رہے بلکہ فروغ پائے، آمدورفت بڑھے، ہم کابل جا سکیں اور وہاں سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچ سکیں۔ ایسا ہو سکے تو کتنا سہانا لگے۔ یہ عجیب دردِ سر ہے کہ ازبکستان جانا ہو تو پہلے دبئی جانا پڑتا ہے۔ ستیاناس ہو اُن کا جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اِدھر اُدھر کے ہوائی سفر کا مرکز اسلا...

ایک نیا کوتوال

 دو برس پورے نہیں ہوئے کہ پنجاب میں چھٹا آئی جی آ گیا۔ حیرت بھری ہاہاکار ہر سو مچی ہے حالانکہ تبادلوں کا یہ سونامی اصل میں تبدیلی ہی کی ایک قسم ہے، وعدہ بھرپور تبدیلی کا تھا، جو اس انداز سے پورا ہورہا ہے۔ بہرحال بہت سے لوگ حیران ہیں کہ سابق آئی جی کو بدلنے کی وجہ کیا ملی۔ لگتا ہے لوگ چھٹے آئی جی کے لیے تیار نہیں تھے‘چھٹا آئی جی جس اچانک انداز میں آیا، اس پر لوگوں کو ’’شاک‘‘ لگنا ہی تھا۔ اور اگر شاک لگا ہے تو یہ دراصل لوگوں کی اپنی بے خبری کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم نے تو کئی ماہ پہلے ہی بھرے جلسے میں اعلان کردیا تھا کہ کام نہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ ارے کمال ہے‘ آپ کو یاد نہیں آ رہا؟ یاد کیجئے‘ وزیراعظم نے بھرے جلسے میں کیا کہا تھا؟ فرمایا تھا کہ یہ آئی جی بہت قابل ہے‘ بہت ایماندار اور پیشہ ور ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔لغات سے رجوع کریں تو ان چار نعروں کا یک فکری ترجمہ کیا بنتا ہے۔ موقع کی تلاش تھی‘ جونہی ملا‘ اعلان پر عملدرآمد کردیا۔ کہئے‘ اب نصیحت کی گنجائش کہاں رہی۔ ٭٭٭٭ ساری غلط فہمیاں ’’لغات‘‘ سے ناواقفی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں لغت پڑھ لی جائیں تو وہ سارے اعلانات...