نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مشہور ترین خبر

بجلی کے بلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوا

 ‏اگر آپ بجلی کے بڑھتے ریٹس پر یونہی چپ سادھے بیٹھے رہے تو لکھ لیجیے ایک دن بجلی کا بل آپ کی آمدنی کے برابر آ جائے گا ۔۔ کہ نیپرا دسمبر تک مزید تیرہ روپے فی یونٹ اضافے کی کوشش میں ہے ، یعنی  73 روپے فی یونٹ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد ایسے گھرانے جن کے گھر صرف ایک پنکھا ، چار بلب اور پانی کی موٹر ہے وہ 200 یونٹس خرچ کرنے پر ماہانہ 16000 ہزار بل کی مد میں دیں گے ۔  اب خود سوچیے جس کے گھر میں صرف  ایک پنکھا اور چار بلب ہوں اس کی ماہانہ آمدن کتنی ہوگی ۔۔۔۔ بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد وہ باقی اخراجات کیسے پورے کرے گا ؟  اور اس حساب سے وہ مڈل کلاسیے جن کے گھر فریج ، موٹر ، استری اور واشنگ مشین بھی ہے وہ ماہانہ بجلی کا بل ادا کرسکیں گے ؟ جن کے اب بھی بل بیس ہزار تک آ رہے ہیں وہ اتنے ہی یونٹس کی کھپت پر اگلے سال ماہانہ پینتس ہزار دے سکیں گے ؟ تب کمیٹی ڈال کر بھی شاید بل نہ ادا ہوسکے ۔۔۔  اور ایک اے سی والے گھرانے تو ماہانہ ستر ہزار بل کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں ۔۔۔  اپ یقین کیجیے ۔۔۔ میں نے کم آمدنی والوں کو بجلی کا بل پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا ہے ۔۔ ان کی آنکھوں ...
حالیہ پوسٹس

اردو بمقابلہ ‏انگریزی

اردوہماری تہذیبی شناخت ہے۔اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔اختلاف بعض دوسرے امور میں ہے ۔مثال کے طور پرکیا یہ شناخت ہمیں مطلوب بھی ہے؟ تہذیبی شناخت کے لیے صرف ماضی سے وابستگی کافی ہے یا اس کے کچھ مطالبات مستقبل سے متعلق بھی ہیں۔ مادی ترقی نے زندگی کے طور طریقوں کو بدل ڈالا ہے۔رہن سہن سے لے کر وسائلِ پیداوار تک‘سب بدل چکا۔اس سے وہ ادب دھیرے دھیرے متروک ہوتا جا رہا ہے جو پچاس ساٹھ سال پہلے تک لکھا گیا۔وہ کلچر اب باقی نہیں جس سے تشبیہ واستعارہ اٹھے تھے ۔چرخہ اب کہیں نہیں ہے۔نئی نسل نے چرخہ دیکھا نہ اس کی کوک سنی۔اور تو اور لوح و قلم تک متروک ہوچکے۔غالب و میر کی تشبیہ کوآج کی نسل سمجھتی ہے نہ اقبال اور فیض کے استعاروں کو۔غالب و اقبال کے بغیر کون سی تہذیب اور کیسی روایت؟ تہذیب ہو یا روایت‘یہ تب ہی زندہ رہتی ہیں جب لہو کی طرح کسی جماعت کی رگوں میں دوڑتی رہیں۔جس دن لہو کی گردش رکی‘جان لیجیے کہ موت نے آ لیا۔رگوں میں دوڑنے کا مطلب ہے کہ تہذیبی مظاہر روز مرہ زندگی کا حصہ بنے رہیں۔ اردو پڑھائی جاتی رہے۔شاعرکی تشبیہات اور استعارے کلچر سے جڑے رہیں۔ اگر یہ نہیں ہیں تو پھر مصنوعی تنفس سے انہیں زندہ ن...

کھایا ‏پیا ‏اور ‏نکلے

ہمارے ارد گرد ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو بہت عجیب ہے اور بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم درست انداز سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ورنہ ہر کہانی اپنے آپ کو بیان کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ بہت سے معاملات ایک دوسرے سے بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں جبکہ اُن میں بہت سے حوالوں سے مماثلت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں ہر شے اپنی حقیقت سے ہٹ کر بہت کچھ دکھائی دیتی ہے یا دکھائی جاتی ہے۔ کہاں کورونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن اور کہاں افغانستان سے امریکا و اتحادیوں کا انخلا؟ کیا اِن دونوں معاملات میں کوئی مطابقت دکھائی دیتی ہے؟ بادی النظر میں تو یہ دونوں ہی معاملات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر بھی سوچئے تو ایک بات صاف محسوس ہوتی ہے‘ کہ دونوں ہی معاملات سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر انتہائی نوعیت کی بلکہ سفاکی سے مماثلت رکھنے والی خود غرضی آج بھی پائی جاتی ہے۔ انسان نے بہت کچھ پالیا ہے مگر جو کچھ پایا ہے وہ کل ملاکر مادّی سطح پر ہی ہے۔ اخلاقی و روحانی معاملات میں بہت کچھ کھو دیا گ...

پاکستان ‏میں ‏طالبان ‏والے ‏حالات ‏نہیں

لاکھ کمزوریاں ہماری اور اُن کمزوریوں کا اعتراف بھی ہم کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے معاشرے کو برا بھلا کہتے ہیں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی تمام کمزوریوں اور مسائل کے باوجود یہ معاشرہ بہتوں سے بہتر ہے۔ رشوت ہے کرپشن ہے نااہلی اور کاہلی ہے لیکن اِس میں خوبیاں بھی ہیں۔ خوبیاں نہ بھی ہوں تو ہم میں سے اکثریت کیلئے یہی ایک گھر ہے۔ تلاشِ معاش میں ہمارے لوگ اِدھر اُدھر جاتے ہیں‘ لیکن گھوم پھر کے گھر اِسی کو کہتے ہیں۔ اِسی سے ہم مانوس ہیں۔ اِسی میں اپنائیت ملتی ہے۔ لہٰذا افغانستان جانے اور وہاں کے طالبان۔ ہماری امید اُن سے یہی ہے کہ وہاں امن رہے تاکہ تخریب کاری یا اور قسم کے شر وہاں سے یہاں نہ آئیں۔ ہم جہاد کے نام پہ بہت کچھ بھگت چکے ہیں، مزید بھگتنے کا ہم میں دم نہیں۔ تجارت رہے بلکہ فروغ پائے، آمدورفت بڑھے، ہم کابل جا سکیں اور وہاں سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچ سکیں۔ ایسا ہو سکے تو کتنا سہانا لگے۔ یہ عجیب دردِ سر ہے کہ ازبکستان جانا ہو تو پہلے دبئی جانا پڑتا ہے۔ ستیاناس ہو اُن کا جو پاکستان کی قومی ایئرلائن کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اِدھر اُدھر کے ہوائی سفر کا مرکز اسلا...

بڑے لوگوں کے بڑے واقعے

 مجھے پرفیوم کی خوشبو اچھی لگتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ لانگ واشنگ ہو، اس حوالے سے پرابلم یہ ہے کہ مارکیٹ میں بلکہ بیرون ملک بھی دو نمبر پرفیوم کی برمار ہے، آپ آدھی بوتل خود پر چھڑک لیتے ہیں مگر مجال ہے کسی دوسرے کے ناک میں اس کی ’’بھنک‘‘ بھی پڑ جائے، اس کے لئے مخاطب سے جپھی ڈالنا پڑتی ہے، میں آنے بہانے کووڈ کی پروا کئے بغیر دوستوں کو جپھیاں ڈالتا ہوں کہ کاش وہ کبھی کہیں کہ واہ کیسی عمدہ بھینی بھینی خوشبو ہے مگر یہ کبھی سننے میں نہیں آیا، سو اب میں کسی ایسی ’’تیز دھار‘‘ پرفیوم کی تلاش میں ہوں کہ میرے آفس میں داخل ہونے والا اس کی تیز خوشبو کی وجہ سے چھینک چھینک کر ادھ موا ہو جائے اس کے علاوہ کوئی ایسی پرفیوم بھی ہونی چاہئے جو لباس کی بُو کے علاوہ ان خیالات کی بُو بھی مار سکے جو بہت خوشحالی میں بھی کسی سے ملتے وقت ذہن میں چل رہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی پرفیوم ابھی ایجاد نہیں ہو سکی اور ہونی بھی نہیں کہ دنیا کا بیشتر نظام اِس منافقت سے چل رہا ہے۔ میری ایک خواہش اور بھی ہے وہ یہ کہ کوئی صاحب بوقت ملاقاتِ یہ نہ پوچھے پہچانا، ’’بندہ ان سے پوچھے کیا آج تک کوئی شخص ک...

غربت ‏اور ‏مہنگائی ‏کے ‏ہوتے ‏ہوئے

کورونا کی وبا کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے عوام کا جینا دوبھر کیا۔ کئی ماہ کی بندش نے کاروباری ماحول کو مٹی میں ملادیا۔ بیروزگاری کیا کم تھی‘ اب مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ کھانے پینے کی اشیا روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ بعض اشیا کے دام بے قابو ہوچکے ہیں۔ حکومت اس صورتحال میں یکسر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جس چیز کی قیمت کنٹرول کرنے کی بات کرتے ہیں وہ مزید مہنگی ہو جاتی ہے! اس وقت ملک بھر میں بیشتر اشیائے صرف کے دام خطرناک حد تک بڑھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے قیامت سی ڈھائی ہوئی ہے۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (تنظیم برائے پائیدار ترقی) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں سب زیادہ افراطِ زر (مہنگائی) پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت افراطِ زر میں اضافے کی شرح 9 فیصد ہے جبکہ بھارت میں 7.34 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.97 فیصد اور سری لنکا میں 4.1 فیصد ہے۔ پاکستان میں آٹا 60 سے 70 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے جبکہ بھارت میں اس وقت آٹا 28 روپے، بنگلہ دیش میں 41 ٹکا اور سری لنکا میں 93 روپے...

حرمتِ رسولﷺ پر جان بھی قربان

کوئی ہے جو فرانس کے صدر کو بتائے کہ ردِ عمل میں جینے والا خود کو خیر سے محروم کر لیتا ہے۔  ربیع الاوّل کے دن ہیں۔ مسلم دنیا اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی یاد سے مہک رہی ہے۔ گلیوں میں چراغاں ہیں۔ عمارتیں قمقموں سے روشن ہیں۔ یہی نہیں، یہ چراغ دل کے نہاں خانوں کو بھی پُرنور بنائے ہوئے ہے۔ فرانس کے صدر سمیت کتنے ہیں جو اس روشنی سے محروم ہیں؟ فرانس کے کسی مسلمان شہری نے اگر کوئی اقدام کیا تو ساری امتِ مسلمہ، اس کی ذمہ دار کیسے ہو گئی؟ فرانس کے صدر کو یہ حق کیسے مل گیاکہ وہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے دل زخمی کریں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ دنیا میں کوئی آزادی مطلق نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا توان کے ردِ عمل کاجواز کیاتھا؟ فرانس کے طالب علم نے اس کے سوا کیا کیا کہ اپنا حقِ آزادی استعمال کیا؟ آپ اس استدلال کو قبول نہیں کرتے کہ کسی کی جان لینے کا حق کسی کو نہیں۔ بجا ارشاد، لیکن کسی بے گناہ کا دل دکھانے کا حق آپ کوکیسے مل گیا؟ فرانس کے صدر کا ردِ عمل ایک فردِ واحد کا ردِ عمل نہیں ہے۔ اسے ایک ملک کا سرکاری موقف سمجھا جائے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے فرانس نے ترکی کے صدر کی بات کو ایک...